جب آپ ﷺ سفر کے لیے سواری پر سوار ہوتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے اور درج ذیل دعا پڑھتے تھے:
« سُبْحَانَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَمَا كُنَّا لَه مُقْرِنِيْنَ وَإِنَّـآ إِلىٰ رَبِّـنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِيْ سَفَرِنَا هٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰى وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰى اَللّٰهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هٰذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَه اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيْفَةُ فِي الْأَهْلِ اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ وَسُوْءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ ».
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے لوٹتے تھے تو انہی کلمات کودہراتے تھے اور اس میں ان کلمات کااضافہ فرماتے:
« آئِبُوْنَ تَآئِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّـنَا حَامِدُوْنَ ». (صحیح مسلم) فقط واللہ اعلم
آغاز سفر پر اذکار
(١) اَللّٰهُمَ إِنّا نَسْأَلُكَ فِی سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی. اَللّٰهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا وَاطْو عَنَّا بُعْدَه، اَللّٰهُمْأَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِی الْأَهْلِ. اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَ کَآبَةِ الْمَنْظَرِ وَسُوْءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْأَهْلِ.
اے اللہ، ہم اس سفرکے لیے برو تقویٰ کا زاد سفر طلب کرتے ہیں اور تیرے پسندیدہ عمل کی توفیق چاہتے ہیں۔ اے اللہ، ہمارے لیے یہ سفر آسان کردے، اس کی طوالت کو کم کردے۔ اے اللہ، تو سفر میں ہم مسافروں کا رفیق اور ہمارے پیچھے ہمارے گھر والوں کا محافظ و نگران ہے۔ اے اللہ، ہم سفرکی مشقت سے، غم ناک مناظرسے اور ایسی واپسی سے جس سے گھر میں اہل و عیال اور مال و دولت میں کوئی بھی خرابی اور کمی ہو، تیری پناہ چاہتے ہیں۔
دعا کی وضاحت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کا آغاز اس بات سے کیا ہے کہ اے اللہ، ہمیں زاد راہ کے طور پر بروتقویٰ کی نعمت سے بہرہ مند فرما۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق کی ہے۔ قرآن مجید نے حج کے سفر کے لیے حج میں رفث و فسوق سے روکتے ہوئے یہ فرمایا کہ حج پر جاتے ہوئے فسق و فجور اور رفث و فساد کا عزم و ارادہ نہ کرو، بلکہ تقویٰ و نیکی کا زاد راہ اختیار کرو۔ 'تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی' (البقره ٢: ١٩٧) ''تقویٰ کو زادراہ بناؤ، اس لیے کہ یہ سب سے بہتر زاد راہ ہے۔''
افسوس ہے کہ اس وقت اکثر حاجی اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کا خیال نہیں کرتے اور حج کرتے وقت بھی صحیح معنی میں تقویٰ اختیار نہیں کرتے۔ اس زاد راہ کی کمی کا منظر دیکھنا ہو تو حجر اسودکے پاس استلام کے موقع پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ایسے لوگ کس طرح کمزوراور بوڑھے حاجیوں کے لیے نہایت تکلیف کا باعث بنتے اور نہایت مصروفیت کے وقت حجر اسود پر قبضہ کیے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ سب تقویٰ کے خلاف ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ہدایت کے مطابق حج کے سفر کے علاوہ اسی زاد سفر کی دعا کی۔
اس دعا کا مزاج بھی تعلیمی ہے۔ اس میں تقویٰ کا زاد راہ اپنانے کی تعلیم دی گئی ہے۔ جب آدمی گھر سے لمبے سفر کے لیے نکلتا ہے تو اس کے عزائم کئی طرح کے ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح سفر اچھے امکانات کے ساتھ برے امکانات کے پیدا کرنے کا وسیع ذریعہ بھی بنتا ہے۔ گھر سے نکلتے وقت آدمی کے عزائم جیسے بھی ہوں، سفرکے پیدا کردہ یہ امکانات ان عزائم میں تبدیلی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
دوسرے شہروں یا ملکوں میں ایک خاص طرح کی آزادی بھی آدمی کو حاصل ہو جاتی ہے۔ نہ اس کے عزیزوں میں سے اسے کوئی دیکھنے والا ہوتا ہے اور نہ گھر والوں میں سے۔ ان وجوہ سے لوگ برائی کو اختیار کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تقویٰ کو زاد راہ بنانے کی اس دعا کے ذریعے سے ہمیں تلقین کی ہے۔ اللہ کی پسند کے عمل اختیار کرنے کی دعا مانگی ہے۔
اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی ہے کہ اے اللہ، ہمارے لیے یہ سفر آسان کر دے، اس کی طوالت کو کم کردے۔ دینی پہلو سے دعا کرنے کے بعد، یہ دعا سفر کے دنیوی پہلو کے متعلق سکھائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس سفر کو آسان کردے۔ ایسی دعاؤں میں اگر ترتیب زمانی ہو تو ''دین'' اور ''آخرت'' بعد میں آئیں گے اور اگر ان کی اہمیت کے لحاظ سے ترتیب ہو تو دین و آخرت پہلے آئیں گے۔ اسی لحاظ سے اس دعا میں دنیوی پہلو کے بجائے پہلے دینی پہلو سے دعا کی گئی ہے۔ یعنی اپنی اہمیت کے اعتبار سے نیکی کا زاد سفر، سفر کی آسانی کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے۔ یعنی اگر نیکی چلی گئی تو اس سے دونوں جہانوں کا نقصان ہے اور اگر سفر مشکل ہوا تو یہ صرف سفرکی ناکامی ہو گی۔
اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی ہے کہ ـاے اللہ، تو سفر میں ہم مسافروں کا رفیق اور ہمارے پیچھے ہمارے گھر والوں کا مالک و آقاہے۔ یہ الفاظ اس احساس کی وجہ سے زبان سے نکلے ہیں، جو آدمی لمبے سفر پر نکلتے ہوئے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے بارے میں محسوس کرتا ہے۔ سفر میں مسافر تنہا جارہا ہوتا ہے یا کم سے کم اپنے اہل خانہ سے جدا ہونے کا احساس اسے کمزور کر دیتا ہے۔ اور اپنی عدم موجودگی میں اسے اپنے اہل خانہ کے بارے میں اندیشہ رہتاہے کہ نہ جانے میرے بعد ان کے ساتھ کیا ہو۔ ان احساسات کو زائل کرنے اور اس خوف سے امن و اطمینان پانے کے لیے وہ اپنے گھر والوں اور اپنے آپ کو خدا کی سپردداری میں دے دیتا ہے۔ اس طرح سے کہ وہ اللہ سے اپنے لیے سفر میں ہمراہی طلب کرتا ہے اور گھر والوں کے لیے محافظت و نگرانی کی فریاد کرتاہے۔
آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی کہ اے اللہ، ہم سفرکی مشقت، غم ناک مناظر اور واپسی پر گھر میں اہل و عیال اور مال و دولت میں ہر طرح کی خرابی سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
سفر کی مشقت سے صرف جسم کو تھکادینے والی مشقت ہی مراد نہیں ہے، بلکہ اس میں وہ ذہنی تکان بھی شامل ہے، جو آدمی کو بڑے ارادوں کے باندھنے اور طویل سفر جیسے ہمت آزما معاملات میں دل شکستگی کا باعث بنتی ہے۔ غم ناک مناظر سے مراد سفر کے دوران میں پیش آنے والے حادثات ہیں، جن کا تعلق مسافر، اس کے اہل خانہ اور اس کے ہم سفروں سے ہے۔ اور واپسی پر اہل خانہ کی طرف سے کسی اندوہ ناک خبر کا پانا یا امر کا دیکھنا بھی اس میں شامل ہے۔
واپسی پر گھر کی خرابی کی وضاحت خود دعا ہی میں کردی گئی ہے کہ ہم اہل خانہ اور مال و منال میں واپسی پر کوئی خرابی نہ پائیں اور ان کے بارے میں کوئی نقصان کی خبر نہ سنیں۔ یہ خرابی یا نقصان اللہ کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے اور واپسی کے لیے ہمارے غلط فیصلے اور طریقے کی وجہ سے بھی۔ مراد یہ ہے کہ ہمیں اس سفر سے اس وجہ سے واپس نہ آنا پڑے کہ ہمیں گھر سے کسی کی وفات کی خبر ملے یا پردیس میں کاروباری نقصان کی وجہ سے واپس جانا پڑے یا ہماری واپسی کا طریقہ اور فیصلہ ایسا ہو کہ ہمیں یہ نقصانات اٹھانا پڑیں۔
سفر کے موقع پر یہ دعا نہایت جامع و مانع ہے۔ اس میں سفر سے متعلق کم و بیش ہر پہلو سے دعا مانگی گئی ہے۔ دینی و دنیوی شر سے خدا کی پنا ہ طلب کی گئی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سفر پر نکلتے وقت مسافر کے ذہن کی تیاری کی گئی ہے کہ کیسے مسائل سفر میں پیش آسکتے ہیں اور ان سب میں سہارا اگر کوئی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات کاہے۔
(٢)
اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَکَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ وَالْحَوْرِ بَعْدَ الْکَوْرِ وَ دَعْوَةِ الْمَظْلُوْمِ وَسُوْءِ الْمَنْظَرِ فِی الْأَهْلِ وَالْمَالِ وَالْوَلَدِ.
اے اللہ، ہم سفر کی مشقت، منزل واپسیں کی برائی، خوش حالی کے بعد تنگ حالی، مظلوم کی بددعااور اہل خانہ، اولاد اور مال و دولت میں حادثوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
دعا کی وضاحت
اس دعا میں پہلی دعا کے مقابلے میں صرف 'الحور بعد الکور و دعوة المظلوم' کا اضافہ کیا گیا ہے۔ لہٰذا ہم شرح کرتے ہوئے انھی جملوں تک محدود رہیں گے۔
'الحور بعد الکور' سے ان حالات سے پناہ مانگی گئی ہے جو سفر کے نتائج سے پیدا ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ایک مسافر سفر پر جانے سے پہلے اچھے حالات میں تھا اور وہ حالات کو مزید بہتر کرنے کے لیے کسی دوسرے علاقے میں جانے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کا وہ چلتا ہوا کاروبار جس کو وہ چھوڑ کر جارہا ہوتا ہے وہ تو بند ہو گیا اور دوسرے شہر میں جا کر بھی وہ ناکام ہو جائے تو یہ 'الحور بعد الکور'کی ایک مثال ہو گی۔ یہ حالت دوسرے علاقے میں کاروبار چل جانے کے بعد چھوڑ کر اپنے وطن آنے پر بھی ہو سکتی ہے۔
'الحور بعد الکور' سے صرف مالی حالات ہی کی خوش حالی مراد نہیں ہے، بلکہ اس میں جانی، مالی اور سماجی حالات سب شامل ہیں۔ سفر کے ارادہ و ترک کے اثرات آدمی کے سماجی تشخص پر بھی پڑ سکتے ہیں اور اس سے جان و مال کا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔
'و دعوة المظلوم' پورا جملہ یوں ہے 'و دعوة المظلوم علی الظالم' یعنی میں مظلوم کی ظالم کے خلاف دعا سے پنا ہ چاہتا ہوں۔ اس دعا سے مراد یہ ہے کہ میں ظالم بننے سے پنا ہ چاہتا ہوں۔ انبیا کی نظر بعض ایسے امور پر آسانی سے چلی جاتی ہے جو بڑے بڑے لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔ سفر اختیار کرنے کے کئی سبب ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات آدمی لوگوں سے قرض لے لیتا، کمزور لوگوں سے کچھ چیزیں اینٹھ لیتا اور پھر ان کی طرف سے مطالبہ اور نالش وغیرہ سے بچنے کے لیے اپنی بستی اورعلاقے کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ اس طرح آدمی دوسروں پر ظلم کے لیے بھی سفر اختیار کر لیتا ہے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں دعا کرنے والے کے لیے یاددہانی کا سامان رکھا ہے کہ وہ اس دعا کے ذریعے سے ایسے کسی ظلم کو وجود میں لانے سے رک جائے۔
Ibn Umar (Allah be pleased with them) reported that whenever Allah's Messenger (may peace be upon him) mounted his camel while setting out on a journey, he glorified Allah (uttered Allah-o-Akbar) thrice, and then said:
ReplyDeleteHallowed is He Who subdued for us this (ride) and we were not ourselves powerful enough to use It as a ride, and we are going to return to our Lord. O Allah, we seek virtue and piety from Thee in this journey of ours and the act which pleaseth Thee. O Allah, lighten this journey of ours, and make its distance easy for us. O Allah, Thou art (our) companion during the journey, and guardian of (our) family. O Allah, I seek refuge with Thee from hardships of the journey, gloominess of the sights, and finding of evil changes in property and family on return. And he (the Holy Prophet) uttered (these words), and made this addition to them: We are returning, repentant, worshipping our Lord. and praising Him.
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَلِيًّا الأَزْدِيَّ، أَخْبَرَهُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ عَلَّمَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا اسْتَوَى عَلَى بَعِيرِهِ خَارِجًا إِلَى سَفَرٍ كَبَّرَ ثَلاَثًا ثُمَّ قَالَ " سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِي الأَهْلِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالأَهْلِ " . وَإِذَا رَجَعَ قَالَهُنَّ . وَزَادَ فِيهِنَّ " آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ " .
Reference : Sahih Muslim 1342
In-book reference : Book 15, Hadith 479
USC-MSA web (English) reference : Book 7, Hadith 3113